ماہِ اقبالؒ کے حوالے سے ایک مکالماتی نشست اور گزارشات۔رپورٹ
۔
روح فورم اسوہءِ حسنہ کے ذریعے تمام مسائل کے حل کے لیے کوشاں ہے۔فکرِ اقبالؒ میں اسوہءِ حسنہ کی ترجمانی ہے اس لیے فورم فکرِ اقبالؒ کی ترویج کے لیے سرگرمِ عمل ہے۔ فورم نے “ماہِ نومبر، ایک تسلسلِ عہد” کے موضوع پر 12 نومبر 2017، بروز اتور اپنے مرکزی دفتر میں ایک مکالماتی نشست کا انعقاد کیا جس میں ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے خواتین و حضرات اور طلبہ و طالبات نے شرکت فرمائی۔اس نشست کا مقصد یہ تھا کہ مل کر ایسا لائحہ عمل مرتب کیا جائے جس پر عمل پیرا ہو کر اپنا کھویا ہوا وقار اور تشخص پھر سے بحال کیا جائے اور فکرِ اقبالؒ کو عملی جامہ پہنایا جائے۔
پروگرام کا آغاز تلاوتِ کلامِ پاک سے ہوا۔
محترم برگیڈئیر منیر نے نظامت کے فرائض سر انجام دیے۔ آغاز میں انھوں نے تمام احباب کی شرکت کو سراہتے ہوئے کہا کہ اگر ہم متحد ہو جائیں اور اپنے اپنے میدان عمل میں فرض شناس ہو جائیں تو حالات بدلے جا سکتے ہیں۔
دیے گئے موضوع پر محترم زید گل خٹک صاحب نے گفتگو فرمائی اور اسوہءِ حسنہ اور فکرِ اقبالؒ کی روشنی میں تفصیل کے ساتھ موجودہ مسائل کے حل کی طرف اشارہ فرمایا۔
خلاصہ
اقبالؒ نے نے ایک مکالمہ پیش کرتے ہوئے دورِ حاضر کے مسائل اور ان کے حل کی طرف رہنمائی فرمائی ہے۔یہ مکالمہ مریدِ ہندی اور پیرِ رومی ؒ کے مابین ہے۔آپؒ شعری اندازمیں سوال کرتے ہیں اور جواب مولانا رومؒ کی مثنوی سے کسی شعر کا انتخاب کر کے دیتے ہیں۔
مریدِ ہندی
چشمِ بینا سے ہےجاری جوئے خوں
علمِ حاضر سے ہے دیں زار و زبوں
پیرِ رومی
علم را برتن زنی مارے بود
علم را بر دل زنی یارے بود
علامہ اقبالؒ دورِ حاضر کی تنزلی سے نالاں ہیں اور کہتے ہیں کہ علمِ حاضر سے دین کی شاخیں پھل پھول نہیں رہیں۔جواب میں مولانا رومؒ فرماتے ہیں کہ جب علم تن زنی یعنی جزوی فائدے کے لیے حاصل کیا جائے تو اس سے معاشرے کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا بلکہ نقصان کے اسباب پیدا ہوتے ہیں۔علم دل زنی کے لیے ہے۔علم سے تہذیبِ نفس، معرفتِ نفس اور تزئین خُلق جیسی چیزیں جڑی ہیں ۔اسکول کالج کا دروازہ معاشرے کی طرف کھلتا ہے۔اگر شعورِ حیات تعلیمی اداروں میں دیا جائے تو معاشرے میں بہتری لائی جا سکتی ہے ۔معاشرتی اقدار کو سنوارنے کے زمرے میں پرائمری تعلیم اہمیت کی حامل ہے۔حضورؐ نے فرمایا چھوٹی عمر میں علم حاصل کرنا ایسا ہوتا ہے جیسے پتھر پر نقش بنانا۔پتھر تو ٹوٹ جاتے ہیں نقش نہیں مٹتے۔اگر ہم پرائمری لیول پر ایسا نظامِ تعلیم متعارف کرائیں جہاں جدید علوم کے ساتھ کردار سازی، فرض شناسی اور مقصدِ حیات سے روشناس کرایا جائے تو ہم اپنی اقدار و تہذیب کے احیاء کے ساتھ ساتھ ترقی و خوشحالی کے میدان میں دنیا کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔
اس کے بعد محترم کرنل مرتضی علی شاہ صاحب نے روح فورم کا تعارف اور مقاصد پیش کیے اور شرکاء کو دعوت دی کہ اپنی دلچسپی اور شعبے کے مطابق فورم کی کسی بھی ذیلی شاخ کا حصہ بن کر ہماری معاونت فرمائی جا سکتی ہے یا فورم سے معاونت حاصل کی جا سکتی ہے
گفتگو کا خلاصہ
اقبالؒ نے فرمایا”علمِ حاضر سے ہے دیں زار و زبوں”
ہم تعلیمی اداروں پر تنقید تو کرتے ہیں مگر نقصان ہمارے اپنے ہاتھوں سے ہو رہا ہے۔کیا علی گڑھ اور نہیں بن سکتا تھا۔ہلاکو خان نے علمی سرمایا اگر پانی میں بہا دیا تھا تو کیا اس کے بعد دانشور نقصان کا اذالہ نہیں کر سکتے تھے۔ہم نے خود کو محدود مقاصد میں جکڑ رکھا ہے اور مقصدِ حیات سے دور ہو کر رہ گئے ہیں۔قربانی کے تحت ایک حصہ ذاتی ہوتا ہے،د وسرا رشتہ دار و اقربا کا اور تیسرا غربا و مساکین کا۔اگر ہم قربانی کے فلسفے کو سمجھتے ہوئے دوسروں کے لیے بھی سوچنا شروع کر دیں تو معاشرہ مسائل سے پاک ہو سکتا ہے۔
روح فورم کا بنیادی مقصد اسوہءِ حسنہ پر عمل پیرا ہوتے ہوئے دانشور، رائٹر، رہنما اور سرمایہ کاروں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنا ہے اور یہ کام فکرِ اقبالؒ کی ترویج سے سہولت کےساتھ کیا جا سکتا ہے۔
روح فورم کے زیرِ سایہ چار گروپ ہیں
• دانشوروں کا گروپ
• سوشل ڈویلپمنٹ گروپ
• اکنامک ڈویلپمنٹ گروپ
• تعلیم و تربیت گروپ
• آئڈیا کلب
تمام شعبوں سے متعلقہ خواتین و حضرات ہمارے ساتھ مل کر مقاصد کے حصول کے لیے سرگرمِ عمل ہوں یا ہمیں اپنے ساتھ کام کرنے کا موقع فراہم کریں۔فورم کا ایک مقصد کردار سازی کے ذریعے لیڈر ز تیار کرنا بھی ہے جن کی اقتدا میں لوگ فلاحِ معاشرہ کے لیے کام کر سکیں۔
دانشوروں کا گروپ(Intellectuals Group) کا مقصد فلاحِ معاشرے کے لیے حکمتِ عملیاں مرتب کرنا ہے۔سوشل ڈویلپمنٹ گروپ کا مقصد الیکٹرانک میڈیا، پرنٹ میڈیا اور قبائلی ، علاقائی، مسلکی، لسانی، مذہبی شناختوں یا گروہوں ، ٹرسٹس اور این جی اوز کو باہم مربوط کر کے منفی رجحانات کا خاتمہ ہے۔ اکنامک ڈویلپمنٹ گروپ کا مقصد چھوٹے بڑے کاروباری حلقوں کی جڑت(Integration) سے اپنا برینڈ بنا کر بین الاقوامی اقتصادی منڈیوں کی رسائی حاصل کرنا ہے تا کہ قومی خوشحالی میں بھی اپنا کردار ادا کیا جا سکے۔ تعلیم و تربیت گروپ کا مقصد کردار سازی کے ساتھ ساتھ ہنر مندی کو فروغ دے کر بے روزگاری کا خاتمہ اور معاشی خوشحالی ہے۔آئڈیا کلب کا مقصد کسی بھی قسم کے آئیڈیا کو رجسٹر کروا کر اسے پایہ ء تکمیل تک پہنچانے کے لیے عمل در آمد کرنا ہے۔
یورپ میں Corporate Social Responsibility (CSR) کا تصور ہے جبکہ ہمیں اسلام نے مواخات کا وسیع تصور دیا ہے جس پر ہم عمل پیرا نہیں۔
اس کے بعد سوال و جواب کا سیشن ہوا اور شرکاء کی پر تاثر گفتگو سے مندرجہ ذیل نکات اخذ کئے گئے
• اسوہءِ حسنہ کے ذریعے تمام مسائل حل کیے جا سکتے ہیں۔
• اسوہءِ حسنہ کی ترویج کے لیے فکرِاقبالؒ بہتر ین ذریعہ ہے۔
• مواخاتِ مدینہ کی طرز پر دانشوروں، ادیبوں، اساتذہ، سماجی اداروں، تجارتی و کاروباری حلقوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونا چاہیے
• تربیتِ اساتذہ کے ذریعے تعلیمی سرگرمیوں میں مثبت تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے
• ربطِ باہم کے جذبے کے تحت ہم خیال ماہرینِ تعلیم متحد ہو جائیں
• کاروباری حلقے مل کر اقتصادی منصوبے تشکیل دیں اور قربانی کا جذبہ بروئے کار لاتے ہوئے حاصل شدہ سرمائے کا کچھ حصہ فلاحِ معاشرہ کے لیے خرچ کریں۔
• کاروباری حلقوں کو متحد ہو کر بین الاقوامی اقتصادی منصوبوں کی طرف توجہ دینی چاہیے اور برینڈنگ کی طرف راغب ہو کر قومی خوشحالی میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
• ہم خیال احباب پرائمری اسکول کی بنیاد رکھیں جہاں جدید علوم کے ساتھ ساتھ اسلامی اقدار کا احیاء ممکن بنایا جا سکے۔
• مصنفین ، ماہرینِ تعلیم اور اساتذہ فکرِ اقبالؒ سے متعلق سرٹیفیکٹس کورسز مرتب کریں ۔
• لوگوں کو مقصدِ حیات سے روشناس کروا کر معاشرے کا فعال رکن بنائیں۔
• سوشل میڈیا کے بڑھتے ہوئے منفی رجحانات کو ختم کرنے کے لیے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے وابستہ خواتین و حضرات کا ایک گروپ تشکیل دیا جائے جو مثبت کردار ادا کریں۔
• مصنفین، شعرا ، ادیبوں اور لکھاریوں کا ایک گروپ تشکیل دیا جائے اور مختلف پبلشنگ اداروں سے منسلک ہو کر ایسےلٹریچر پر کام کیا جائے جس سے ناامیدی ختم ہو اور اسلامی و ملی اقدار کا احیاء ممکن ہو سکے۔
• طلبا و طالبات میں قائدانہ صلاحیتوں کو پروان چڑھایا جائے۔
مہمانِ اعزاز محترم عبدالصبور نے کہا کہ برصغیر میں اقبالؒ کو بھیج کر اللہ تعالیٰ نے پوری قوم کو انعام سے نوازا۔ سنتِ اقبالؒ ہی سنتِ نبویؐ ہے۔ “نظم شکوہ،جوابِ شکوہ” فکرِ اقبالؒ کا نچوڑ ہے۔کلامِ رومیؒ میں اللہ سے محبت کا اظہار ملتا ہے جب کہ اقبالؒ محبت کو قوت میں تبدیل کر کے انسان میں ناممکن کو ممکن بنانے کی تحریک پیدا کرتے ہیں۔علم کا بنیادی مقصد رب کو پہچاننا ہے اس کے بعد جزوی مقاصد آتے ہیں ۔جب تک ہماری سوچ میں جدت پیدا نہیں ہو گی نیا علمی میدان میں ترقی نہیں ہو گی۔اگر ہم طلباء کو علم کے درست مقاصد کی طرف راغب کریں تو پورے معاشرے میں مثبت تبدیلیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔ اس حوالے سے تعلیمی اداروں کے معاونت و مشاورت ضروری ہے۔
آخر میں صاحبِ صدر نے گفتگو سمیٹتے ہوئے فورم کی سرگرمیوں کو سراہا اور اختتامی کلمات کہے
“خلاصہ”
اقبالؒ کی علمی صلاحیتوں کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آئن اسٹائن کے نظریہ اضافیت پر بحث کرنے سے آج کے اساتذہ بھی راہِ فرار اختیار کرتے ہیں جبکہ اقبالؒ نے اس پر نہ صرف تنقید کی بلکہ اپنے خطبات میں اس کا ذکر بھی فرمایا۔فکرِ اقبالؒ کو سمجھنے کے لیے وسیع علم کی ضرورت ہے۔آج شرکاء محفل کی گفتگو سے دو باتیں سامنے آئیں۔ہماری قوم کے ساتھ کیا ہوا اور ہمیں کیا کرنا چاہیے۔
قرآن مجید میں ارشادِ باری تعالی ٰ ہے کہ جن نے اپنا تذکیہ کیا وہ فلاح پا گئے۔آج کامیابی کا کیا معیار ہے سب جانتے ہیں۔جدید علوم سے اقبالؒ نے نہیں روکا بلکہ ان کے ساتھ اپنی اقدار کے تحفظ کی ترغیب دی۔انگریز نے اپنی تہذیب کا جو بیج بویا اس نے نمو پائی اور وہ اپنے مقاصد میں کامیاب ہو گئے۔آج شام کو اکیڈمیوں کے باہر والدین قطاروں میں اپنے بچوں کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں مگر مساجد کی طرف توجہ نہیں دلاتے۔ہمیں اچھے علماء کو بھی فورم کا حصہ بنانا چاہیے اور کوئی لائحہ ء عمل تیار کر کے عملی قدم اٹھا نا چاہیے۔تریبت ِ اساتذہ کی ضرورت ہے۔ہمارا پہلا قدم تعلیمی اداروں کے ہم خیال سربراہان کو ایک پلیٹ فارم پر لانا ہے۔ہم میں بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو کلچر کا حصہ ہیں مگر عمل و کردار کے حوالے سے صرف سنتِ نبویؐ ہی قابل تقلید ہے۔
شرکاء کے نام مندرجہ ذیل ہیں
زید گل خٹک، پروفیسر ڈاکٹر قمر اقبال، ڈاکٹر عبدالصبور، کرنل سید مرتضی علی شاہ، برگیڈیر منیر، ڈاکٹر زمان رانجھا،محترمہ حرا بتول، سید ماجد علی شاہ، ، قاسم رضا، عمر حسین، خالد محمود، تنویر نصرت، زین نوید، تسلیم سید، وقاص علی شاہ، محمد امجد، محمد عمران باجوہ، علی رضا شاہ، حافظ احسان الحق، سہیل یونس، تنویر مغل، عمر شیراز، علی رضا شاہ، حمزہ اشرف
پیغام
اقبالؒ نے فرمایا
نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسمِ شبیری
کہ فقرِ خانقاہی ہے فقط اندوہ و دلگیری
اقبالؒ نے اپنے کلام میں متعدد مرتبہ کربلا کا ذکر فرمایا ہے۔اس لیے کہ دین کے تقاضوں کو عملی طور پر پورا کرنے کے لیے اس سے بڑی مثال تا قیامت نہیں مل سکتی۔آج ضرورت عملی اقدامات اٹھانے کی ہے
آپ Volunteer Basis پر بطور رہنما (Leader) فورم میں شمولیت اختیار کر کے مندرجہ ذیل امور کے لیے معاونت فرما سکتے ہیں
مصنفین کے گروپ کی تشکیل
ماہرینِ تعلیم و اساتذہ کے گروپ کی تشکیل
طلبا و طالبات کا گروپ
سوشل میڈیا گروپ
کاروباری حلقے کی تشکیل
آئیڈیا کلب کے منتظم
علمائے اکرام کی مشاورتی کمیٹی کے منتظم
قبائلی و سماجی گروہوں کے منتظم
فلاحی اداروں کی جڑت ومعاونت
مشائخِ عظام سے تعلقاتِ عامہ کے لیے رابطہ کار
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تصور Integration Forum ہے جس کے زیرِ سایہ، ذیلی شاخیں قائم ہوں گی۔تمام شاخیں ایک ہی مقصد کی روشنی میں اپنا کردار ادا کریں اور وہ ہے اسوہءِ حسنہ کا احیاء۔ہم سب روح کے جذبے کے تحت کام کرنے والے ممبرز ہیں اسی لیے فورم میں عہدوں کی تقسیم اور خود نمائی سے اجتناب برتا جاتا ہے۔



